سنا ہے چاند نکل آیا ہے آسماں میں
چلو کچھ تو امید وفا کا صلہ دیں
لو پھر امید ہو چلی ہے روشنی کی
آو ہم ظلمت شب کے شکوے مٹا دیں
جو آئے آنکھ میں آنسو خوشی کا ہو
بچھڑے ہوئے اپنوں کو یوں ملا دیں
پھر ہو گا منور میرا آنگن چاندنی سے
اس خبر پہ شام کے دئیے بجھا دیں
تیرے کھوئے وجود کو پا کر یوں
اس بار بھی کھونے کے غم بھلا دیں
زندگ تیرے ملنے بچھڑنے سے عبارت ہے
شاہد ان اندھیروں اجالوں کو عادت بنا دیں