Friday, April 16, 2021

Chand

 سنا ہے چاند نکل آیا ہے آسماں میں

 چلو کچھ تو امید وفا کا صلہ دیں

 لو پھر امید ہو چلی ہے روشنی کی

 آو ہم ظلمت شب کے شکوے مٹا دیں

 جو آئے آنکھ میں آنسو خوشی کا ہو

 بچھڑے ہوئے اپنوں کو یوں ملا دیں

 پھر ہو گا منور میرا آنگن چاندنی سے

 اس خبر پہ شام کے دئیے بجھا دیں

 تیرے کھوئے وجود کو پا کر یوں

 اس بار بھی کھونے کے غم بھلا دیں

 زندگ تیرے ملنے بچھڑنے سے عبارت ہے

 شاہد ان اندھیروں اجالوں کو عادت بنا دیں